موزوں اورجرابوں پر مسح

بغير وضوء كيے جرابيں پہن كر مسح كرنے والے كى نماز كا حكم  
جہالت اور لاعلمى كى بنا پر ميں كچھ عرصہ طہارت كے بغير ہى جرابوں پر مسح كرتا رہا، اس دوران ادا كردہ نمازوں كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

آپ نے جو نمازيں بغير طہارت اور وضوء كيے جرابوں پر مسح كر كے نمازيں ادا كى بطور قضاء ادائيگى واجب ہے. 

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 246 ).



پھٹى ہوئى اور باريك جرابوں پر مسح كرنے كا حكم  
اگر جرابوں ميں سوراخ ہو يا وہ باريك اور شفاف ہوں تو ان پر مسح كرنے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

اگر وضوء كر كے پہنى ہوں اور جب تك وہ اتنى زيادہ نہ پھٹى ہوں كہ عرف عام ميں ننگے پاؤں كے حكم ميں ہو، يا پھر وہ اتنى باريك اور شفاف نہ ہوں كہ عرف ميں ننگے پاؤں كا حكم لگے كہ جرابيں پہننے كے باوجود جلد كى سياہ يا سرخ رنگت نظر آتى ہو تو ان پر مسح كرنا جائز ہے. 

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 246 ).



جرابوں پر مسح كرنے كے ليے ضرورى ہے كہ جرابيں طہارت كاملہ كے بعد پہنى گئى ہوں  
اگر كوئى شخص داياں پاؤں دھو كر جراب پہن لے اور پھر باياں پاؤں دھو كر جراب پہنے تو اس كا حكم كيا ہے، كيا وہ جرابوں پر مسح كر سكتا ہے ؟

الحمد للہ:

آپ كے ليے ان پر مسح كرنا جائز نہيں، كيونكہ آپ نے پہلى جراب طہارت مكمل كرنے سے قبل پہنى ہے. 

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 247 ).



پھٹى ہوئى جرابوں پر مسح كرنے كا حكم  
كيا پھٹى ہوئى جرابوں پر مسح كرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

علماء كرام كے صحيح قول يہى ہے كہ پھٹى ہوئى جرابوں اور موزوں پر مسح كرنا جائز ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے موزوں پر مسح كرنے كى رخصت دى ہے، اور اس ميں شرط نہيں لگائى كہ وہ پھٹى ہوئى نہ ہوں، خاص كر بعض صحابہ كرام كے موزے سوراخ وغيرہ سے سليم نہ تھے، چنانچہ اگر يہ مسح پر اثرانداز ہوتے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے عام بيان فرما ديتے، اصولى قواعد ميں يہ بات طے شدہ ہے كہ ضرورت كے وقت سے بيان كى تاخير جائز نہيں.

امام سفيان ثورى رحمہ اللہ تعالى تو يہ كہتے تھے:

" ان پر اس وقت تك مسح كرو جب تك يہ تمہارے پاؤں ميں ہيں، اور كيا مھاجرين و انصار كے موزے سوراخوں اور پھٹنے سے محفوظ تھے، ان ميں پيوند لگے ہوتے، اور وہ پھٹے ہوئے اور سوراخ والے تھے "

اسے عبد الرزاق نے روايات كيا ہے، ديكھيں: مصنف عبدالرزاق ( 1 / 194 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ كہتے ہيں:

" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے موزوں پر مسح كرنے كا حكم مطلقا ديا ہے، حالانكہ انہيں علم تھا جو عادتا ہوتا ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے عيوب سے سلامت ہونے كى شرط نہيں لگائى، تو ان كے حكم كو مطلقا ركھنا واجب ہے، اور كسى شرعى دليل كے بغير نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں كوئى قيد نہيں لگانى جائز نہيں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ كا تقاضا ہے كہ لوگ جو موزے پہن كر چلتے ہيں ان ميں انہيں مسح كرنے كى اجازت ہے، چاہے وہ كھلے ہوں يا پھٹے ہوئے اس ميں كوئى مقدار كى تحديد نہيں ہو سكتى اس كے ليے دليل كى ضرورت ہے ... "

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 21 / 174 ).

اسحاق، ابن مبارك، ابن عيينۃ، اور ابو ثور رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے.

امام شافعى، اور امام احمد دونوں سے مشہور يہ ہے كہ جب موزے يا جرابيں پھٹے ہوں اور ان سے فرض والى جگہ ظاہر ہوتى ہو تو ان پر مسح كرنا جائز نہيں.

اور ابو حنيفہ اور امام مالك رحمہما اللہ نے تھوڑے اور زيادہ پھٹے ہونے ميں فرق كيا ہے.

ليكن پہلا قول ہى صحيح ہے كہ جب موزے يا جرابيں قدم سے معلق ہيں اور ان ميں چلنا ممكن ہو تو اس پر مسح كرنا جائز ہے.

اور ان جرابوں پر بھى مسح كرنا جائز ہے جن كے نيچے سے جلد كى رنگت ظاہر ہوتى ہو، كيونكہ موزوں پر مسح كرنے كى اجازت مطلق ہے، اور اسے كسى چيز كے ساتھ مقيد كرنا ثابت نہيں، چنانچہ اس كا تقاضا يہى ہے كہ ہر وہ جراب جو لوگ پہنتے ہيں وہ ان پر مسح كريں، پھٹے ہوئے موزوں ميں جب تك چلا جائے تو اس پر مسح كو جائز كہنے والوں كے قول كا تقاضا يہى ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب كوئى شخص شيشے كا موزہ پہن لے اور اس ميں چلنا ممكن ہو تو اس پر مسح كرنا جائز ہے، چاہے اس كے نيچے سے جلد كى رنگت نظر آرہى ہے .. "

ديكھيں: المجموع للنوو ( 1 / 502 ).


الشيخ سليمان بن ناصر العلوان



موزوں پر مسح كرنے كى شروط  
موزوں پر مسح كرنے كے ليے كيا شروط ہيں، اس كے دلائل كيا ہيں ؟

الحمد للہ:

موزوں پر مسح كرنے كى چار شرطيں ہيں:

پہلى شرط:

موزے وضوء كر كے پہنے ہوں، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ فرمانا ہے:

" رہنے دو ميں نے انہيں وضوء كر كے پہنا تھا "

دوسرى شرط:

موزے يا جرابيں پاك ہوں، اگر نجس ہوں تو ان پر مسح كرنا جائز نہيں اس كى دليل يہ ہے كہ:

" ايك بار رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صحابہ كرام كو جوتے پہن كر نماز پڑھا رہے تھے، چنانچہ دوران نماز ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے جوتے اتار ديے، اور صحابہ كرام كو بتايا كہ انہيں جبريل امين عليہ السلام نے بتايا تھا كہ ان كے جوتوں ميں گندگى لگى ہوئى ہے "

اسے امام احمد نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے مسند احمد ميں نقل كيا ہے.

يہ اس بات كى دليل ہے كہ جس ميں نجاست لگى ہوئى ہو اس ميں نماز نہيں ہوتى، اور اس ليے كہ جب نجس چيز پر مسح كيا جائيگا تو مسح كرنے والا گندگى ميں ملوث ہوگا، چنانچہ اس كا مطہر ہونا صحيح نہيں.

تيسرى شرط:

ان پر مسح حدث اصغر يعنى وضوء ٹوٹنے ميں ہوتا ہے، نہ كہ جنابت ميں يا ايسى اشياء جن سے غسل واجب ہو.

اس كى دليل صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں حكم ديا كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو جناب كے بغير دن رات اور تين تك موزے نہ اتاريں، ليكن پيشاب پاخانہ اور نيند سے پہنے ركھيں "

اسے امام احمد رحمہ اللہ نے مسند احمد ميں نقل كيا ہے.

چنانچہ حدث اصغر كى شرط لگائى جائيگى، اور اس حديث كى بنا پر حدث اكبر كى بنا پر مسح كرنا جائز نہيں جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں.

چوتھى شرط:

مسح شرعى طور پر محدود وقت ميں كيا جائے، جو كہ مقيم كے ليے ايك رات اور دن، اور مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن ہيں.

اس كى دليل على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مقيم كے ليے ايك دن اور رات، اور مسافر كے ليے تين دن اور تين راتيں مقرر كيں، يعنى موزوں پر مسح كے ليے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.

اور يہ مدت وضوء ٹوٹنے كے بعد مقيم كے ليے پہلے مسح سے شروع ہو كر چوبيس گھنٹے بعد ختم ہو جائيگى، اور مسافر كے ليے پہلے مسح كے بہتر ( 72 ) گھنٹوں بعد ختم ہو گى.

چنانچہ ہم فرض كريں كہ ايك شخص نے منگل كے روز نماز فجر كے ليے وضوء كيا اور اس نے اس روز پانچوں نمازيں اسى وضوء كے ساتھ ادا كيں، اور بدھ كى رات نماز عشاء كے بعد سو گيا اور پھر بدھ والے دن نماز فجر كے ليے اٹھا اور پانچ بجے مسح كيا تو اس كے مسح كى ابتد بدھ كے روز صبح پانچ بجے شمار ہوگى، جو جمعرات كى صبح پانچ بجے تك رہے گى.

اور اگر فرض كريں اس نے جمعرات كے دن پانچ بجنے سے قبل مسح كيا تو وہ اس مسح كے ساتھ نماز فجر يعنى جمعرات كى نماز فجر ادا كر سكتا ہے، اور جب تك وہ طہارت پر قائم ہے جتنى چاہے نماز ادا كرے، كيونكہ اہل علم كے صحيح اور راجح قول كے مطابق مسح كى مدت پورى ہونے سے وضوء نہيں ٹوٹتا، يہ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے طہارت كا وقت مقرر نہيں فرمايا، بلكہ مسح كى مدت اور وقت مقرر كيا ہے، چنانچہ جب مدت ختم ہو جائے تو مسح نہيں ہو سكتا، ليكن اگر وہ باوضوء اور طہارت پر قائم ہے تو اس كى طہارت باقى رہےگى، كيونكہ يہ طہارت شرعى دليل كے مقتضى پر باقى اور ثابت ہے، اور جو چيز شرعى دليل سے ثابت ہو وہ شرعى دليل كے بغير ختم نہيں ہوتى.

اور پھر مسح كى مدت ختم ہونے سے طہارت اور وضوء ختم ہونے كى كوئى دليل نہيں، اور اس ليے بھى كہ اصل بھى يہى ہے كہ اسى پر باقى ہے جس پر تھا، حتى كہ اس كا ختم ہونا ثابت ہو جائے.

موزوں پر مسح كرنے كى شرطيں يہى ہے، ليكن بعض اہل علم نے اس كے علاوہ بھى كئى ايك شروط ذكر كى ہيں، ليكن ان ميں سے بعض ميں اختلاف ہے.


ديكھيں: اعلام المسافرين ببعض آداب و احكام السفر و مايخص الملاحين الجويين. تاليف فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين ( 14 ).



موزے يا جرابوں پر مسح كرنے كا طريقہ  
ميرا سوال اس حديث كے متعلق ہے جس ميں وضوء كر كے موزے پہنے ہوں تو مسح كرنے كا ذكر ہے. ابن خزيمہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: جيسا كہ صفوان بن عسال كى حديث ميں آيا ہے كہ: 
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں حكم ديا كہ جب ہم وضوء كر كے موزے پہنيں تو مسافر تين رات اور دن اور مقيم ايك رات اور دن ان پر مسح كرے " ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا يہ ممكن ہے كہ حديث ميں مذكور دن اور رات كو چوبيس گھنٹے شمار كريں، كيا اس طرح ميں كسى بھى وقت وضوء كر كے جرابيں پہنوں تو چوبيس گھنٹے مسح كر سكتا ہوں؟ 
مثال كے طور پر كيا ميرے ليے كسى بھى دن رات گيارہ بجے جرابيں پہننا اور پھر دوسرے دن رات گيارہ بجے تك مسح كرنا جائز ہے ؟ 
اسى طرح ميرى يہ بھى گزارش ہے كہ مجھے يہ بتايا جرابوں كے كس حصہ پر مسح كرنا ضرورى ہے ؟ 
مجھے يہ تو علم ہے كہ جرابوں كے نيچے مسح كرنا جائز نہيں، ليكن كيا ہم جرابوں كى دونوں سائڈوں اور آگے اور پيچھے بھى مسح كرينگے؟ 
گزارش ہے كہ ان سوالات كے جوابات ضرور ديں، اس ليے كہ ايسا كرنے ميں ميرى زندگى كے ليے آسانى پيدا ہو گى، كيونكہ ميرى جلد بہت حساس ہے، اور اس معاملہ كى طرف توجہ نہ دينے سے ميں وسوسوں اور عدم رضا كا شكار ہو جاؤنگا ؟


الحمد للہ:

موزوں يا جرابوں پر مسح كرنے كى ابتدا پہلا مسح كرنے سے شروع ہوتى ہے، نہ كہ موزے پہننے كے وقت سے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9640 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

رہا مسح كرنے كا طريقہ تو وہ درج ذيل ہے:

ہاتھوں كى گيلى انگليوں كو پاؤں كى انگليوں پر ركھ كر اوپر پنڈلى كى جانب پھيرا جائے، دائيں ہاتھ سے دائيں پاؤں اور بائيں ہاتھ سے بائيں پاؤں كا مسح كيا جائيگا، اور مسح كرتے وقت انگلياں كھلى ہوں اور مسح صرف ايك بار ہى كيا جائے.

ديكھيں: الملخص الفقھى للفوزان ( 1 / 43 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يعنى مسح موزے كے اوپر والى جانب كيا جائيگا، چنانچہ وہ اپنا ہاتھ صرف پاؤں كى انگليوں سے پنڈلى كى طرف پھيرے، اور مسح دونوں ہاتھوں سے دونوں پاؤں پر كيا جائيگا، يعنى جس طرح كانوں كا مسح كيا جاتا ہے اسى طرح دائيں ہاتھ سے دائيں پاؤں اوراسى وقت بائيں ہاتھ سے بائيں پاؤں كا مسح كرے، كيونكہ سنت سے يہى ظاہر ہوتا ہے.

مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كا فرمان ہے:

" چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان دونوں پر مسح كيا "

انہوں نے يہ نہيں كہا كہ پہلے دائيں سے ابتدا كى، بلكہ يہ كہا كہ دونوں پر مسح كيا، چنانچہ سنت كا ظاہر يہى ہے، ہاں اگر يہ فرض كريں كہ اس كا ايك ہاتھ كام نہيں كرتا تو پھر وہ بائيں پاؤں سے قبل دائيں پاؤں كا مسح كر سكتا ہے.

بہت سے لوگ دونوں ہاتھ سے دائيں پاؤں اور پھر دونوں ہاتھوں سے بائيں پاؤں پر مسح كرتے ہيں، يہ ايسا عمل ہے ميرے علم كے مطابق تو اس كى كوئى دليل نہيں ملتى....

كسى بھى طريقہ پر مسح صرف موزوں كے اوپر ہى كرنا ہى كافى ہے، ليكن ہمارى يہ كلام تو افضليت كے متعلق تھى، كہ افضل كيا ہے. اھـ

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلۃ ( 1 / 250 ).

موزوں كى دونوں سائڈيں اور اگلى پچھلى جانب مسح نہيں كيا جائيگا كيونكہ اس سلسلے ميں كچھ بھى وارد نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

كوئى قائل يہ كہہ سكتا ہے كہ: معاملہ كا ظاہر تو يہى ہے كہ موزے كى نچلى جانب كا مسح كرنا زيادہ بہتر ہے، كيونكہ مٹى اور گندگى ميں تو وہى حصہ لگتا ہے، ليكن جب ہم اس پر غور و فكر كرتے ہيں كہ تو ہميں يہى پتہ چلتا ہے كہ موزے كى اوپر والى جانب ہى مسح كرنا اولى ہے، اور عقل بھى اسى پر دلالت كرتى ہے، كيونكہ اس مسح سے مراد صفائى نہيں بلكہ اس سے تو عبادت مراد ہے، اور اگر ہم موزے كے نچلى جانب مسح كريں تو يہ اس كے گندہ ہونے كا باعث بنے گا.

مزيد تفصيل كے ليے آپ شيخ ابن عثيمين كى كتاب: الشرح الممتع ( 213 ) كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .


الشيخ محمد صالح المنجد



چمڑے كى جرابيں شرط نہيں  
مسح كرنے كے ليے جرابيں كيسى ہوں، اور كيا كسى بھى قسم كى جراب پر مسح كرنا جائز ہے، يا كہ چمڑے كى جراب ہونا ضرورى ہے، برائے مہربانى كتاب و سنت كى روشنى ميں جواب سے نوازيں ؟

الحمد للہ:

مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وضوء كيا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح كيا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 92 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 86 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

قاموس ميں ہے: الجورب: پاؤں كے غلاف اور لفافہ كو كہتے ہيں.

اور ابو بكر بن العربى كہتے ہيں:

جرابيں پاؤں كا غلاف ہيں جو اون سے بنى ہوتى ہيں تا كہ پاؤں گرم ركھے جائيں.

يحيي البكاء كہتے ہيں ميں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جرابوں پر مسح كرنا موزوں پر مسح كى طرح ہے.

ديكھيں:المصنف ابن ابى شيبۃ ( 1 / 173 ).

ابن حزم رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

جو كچھ پاؤں ميں پہنا جائے ـ جس كا پہننا حلال ہے ـ جو ٹخنوں سے اوپر ہو اس پر مسح كرنا سنت ہے، چاہے وہ چمڑے كے موزے ہوں، يا گھاس كے، يا نمدہ كے، يا اون اور روئى كى جرابيں ہوں، يا بالوں كى ـ ان پر چمڑا لگا ہو يا نہ لگا ہو ـ يا وہ بڑے بوٹ ہوں يا موزوں پر موزے يا جرابوں پر جرابيں پہن ركھى ہو....

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 1 / 321 ).

بعض اہل علم نے موزوں پر مسح كرنے ميں اختلاف كيا ہے، ليكن صحيح يہى ہے كہ مسح كرنا جائز ہے، اس كے دلائل ملتے ہيں، جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.

واللہ اعلم، مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 8186 ) اور ( 9640 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .


الشيخ محمد صالح المنجد



جرابوں پر مسح كرنے كى مدت ختم ہونے كے بعد وضوء نہيں ٹوٹتا  
ميں نے پڑھا ہے كہ موزوں ( يعنى جرابوں ) پر مقيم كے ليے مسح كرنے كى مدت ايك رات اور دن اور مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا مسح كى مدت ختم ہونے پر وضوء ٹوٹ جاتا ہے يا نہيں ؟

الحمد للہ:

شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

صحيح يہى ہے كہ مسح كى مدت ختم ہونے سے ( وضوء ) نہيں ٹوٹتا يعنى مثلا اگر مسح كى مدت دوپہر گيارہ بجے ختم ہو رہى ہے اور رات تك آپ كا وضوء نہيں ٹوٹا تو آپ كى طہارت قائم ہے؛ اس ليے كہ مسح كى مدت ختم ہونے سے وضوء ٹوٹنے كى كوئى دليل نہيں.

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسح كرنے كى مدت اور وقت مقرر كيا ہے، طہارت كا وقت مقرر نہيں كيا، طالب علم كو اس قاعدہ پر متنبہ رہنا چاہيے كہ: جو شرعى دليل سے ثابت ہو وہ شرعى دليل كے بغير ختم نہيں ہوتا؛ كيونكہ اصل ميں وہ اس پر ہى باقى ہے جس پر تھا.


لقاء الباب المفتوح ملاقات نمبر چوبيس.



كيا جرابيں اتارنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟  
اگر انسان وضوء كر كے موزوں پر مسح كرے اور مسح كى مدت كے دوران نماز سے قبل موزے اتار دے تو كيا اس كى ادا كردہ نماز صحيح ہو گى يا كہ موزے اتارنے سے وضوء ٹوٹ جائيگا ؟

الحمد للہ:

الحمد للہ والسلام على رسول اللہ و بعد:

سب تعريفات اللہ كے ليے ہيں، اور اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام كے بعد:

اگر كوئى شخص مسح كرنے كے بعد موزے يا جرابيں اتار دے تو اہل علم كے صحيح قول كے مطابق اس كى طہارت باطل نہيں ہوگى، اس ليے كہ جب آدمى موزے يا جراب پر مسح كرتا ہے تو تو شرعى دليل كى بنا پر اس كا وضوء اور طہارت مكمل ہو جاتى ہے، چنانچہ جب وہ اسے اتار دے تو شرعى دليل كے مقتضى سے ثابت شدہ طہارت شرعى دليل كے بغير ختم نہيں ہو سكتى، اور جراب يا موزے اتارنے والے كا وضوء ٹوٹنے كى كوئى دليل نہيں ملتى.

اس بنا پر اس كا وضوء باقى ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ اور اہل علم كى ايك جماعت كا اختيار كردہ قول يہى ہے، ليكن اگر اس نے موزے يا جرابيں اتارنے كے بعد دوبارہ پہن ليے اور مستقبل ميں ان پر مسح كرنا چاہا تو ايسا نہيں كر سكتا، كيونكہ موزے اس طہارت كے بعد پہننے ضرورى ہيں جس ميں پاؤں دھوئے گئے ہوں، اہل علم كى كلام كے مطابق تو ميرے علم ميں يہى ہے. واللہ تعالى اعلم .


ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ ( 11 / 179 )، اور مجموع الفتاوى لشيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ ( 21 / 179، 215 ).



كيا موزوں پر مسح كرنا افضل ہے يا كہ پاؤں دھونے ؟  
كيا موزوں پر مسح كرنا افضل ہے يا پاؤں دھونے افضل ہيں ؟

الحمد للہ:

جمہور علماء كرام ( جن ميں ابو حنيفہ، مالك اور شافعى رحمہم اللہ شامل ہيں ) كا كہنا ہے كہ پاؤں دھونے افضل ہيں، كيونكہ پاؤں دھونا اصل ہے تو اس طرح افضل بھى يہى ہوگا.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 502 ).

اور امام احمد كہتے ہيں كہ موزوں پر مسح كرنا افضل ہے، اور انہوں درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - يہ زيادہ آسان ہے، كيونكہ حديث ميں ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب بھى دو امروں ميں اختيار ديا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب سے زيادہ آسان كو ليا، جبكہ وہ گناہ نہ ہوتا، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں اس سے سب سے زيادہ دور بھاگنے والے ہوتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3560 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2327)

2 - يہ رخصت ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:

" جس طرح اللہ تعالى اپنى معصيت كرنے كو ناپسند فرماتا ہے، اسى طرح اسے يہ پسند ہے كہ اس كى رخصتوں پر عمل كيا جائے "

مسند احمد حديث نمبر ( 5832 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ارواء الغليل ( 564 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

3 - موزوں پر مسح كرنے ميں ان بدعتيوں كى مخالفت ہوتى ہے جو مسح كرنے كے منكر ہيں، مثلا خوارج اور رافضى شيعہ.

پاؤں دھونے اور موزوں پر مسح كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت سارى احاديث مروى ہيں، جن كى بنا پر بعض علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ: دھونا اور مسح كرنا برابر ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن القيم رحمہما اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے كہ:

ہر ايك ميں افضل يہى ہے كہ وہ اس پر عمل كرے جو اس كى حالت كے موافق ہو، چنانچہ اگر تو اس نے موزے پہن ركھے ہوں تو اس كے ليے مسح كرنا افضل ہے، اور اگر اس كے پاؤں ننگے ہيں تو دھونا افضل ہے، اور پھر موزے تو پہنے ہى اس ليے جاتے ہيں كہ ان پر مسح كيا جائے.

اس كى دليل مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جب انہوں نے وضوء ميں پاؤں دھونے كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے موزے اتارنا چاہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا تھا:

" رہنے دو، كيونكہ ميں نے يہ موزے طہارت كے بعد پہنے تھے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان پر مسح كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 206 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 274 ).

يہ حديث اس كى دليل ہے كہ موزے پہننے والے كے حق ميں مسح كرنا افضل ہے.

اس كى دليل ترمذى شريف كى درج ذيل حديث بھى ہے:

صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں حكم ديا كرتے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين رات اور تين نہ اتارا كريں، پيشاب پاخانہ اور نيند كى بنا پر نہيں بلكہ جنابت كى وجہ سے اتار ديں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 96 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 104 ) ميں اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.

چنانچہ مسح كرنے كا حكم افضليت پر دلالت كرتا ہے، ليكن يہ اس كے حق ميں افضل ہے جس نے موزے پہن ركھے ہوں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور فيصلہ كن بات يہ ہے كہ:

دونوں كے حق ميں افضل يہ ہے كہ جو اس كے قدم كى حالت كے موافق ہو، چنانچہ ننگے پاؤں والے كے حق ميں دھونا افضل ہے، وہ موزے نہ تلاش كرتا پھرے تا كہ اس پر مسح كر سكے، جس طرح كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاؤں جب ننگے ہوتے تو آپ دھوتے، اور جب موزے پہن ركھے ہوتے تو ان پر مسح كرتے " انتہى.

ماخوذ از: الانصاف ( 1 / 378 ).

اور زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ لكھتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے قدموں كى حالت كے مخالف تكلف نہيں كرتے تھے، بلكہ جب موزے پہنے ہوتے تو انہيں اتارتے نہيں تھے بلكہ ان پر مسح كرتے، اور اگر پاؤں ننگے ہوتے تو اپنے پاؤں دھو ليتے، اور موزے نہيں پہنتے تھے كہ اس پر مسح كريں.

مسح كرنا يا دھونے كى افضليت كے مسئلہ ميں يہ سب سے بہتر اور عدل و انصاف والا قول ہے، ہمارے شيخ ( يعنى شيخ الاسلام ابن تيميہ ) كا يہى قول ہے " انتہى.

ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 199 ).

واللہ اعلم .


الاسلام سوال و جواب



اگر كوئى مسح كر كے موزے اتار دے تو كيا وضوء ٹوٹ جائيگا ؟  
جب وضوء كرنے والا شخص موزوں يا جرابوں پر مسح كرنے كے بعد اتار دے تو كيا ايسا كرنے سے طہارت باطل ہو جاتى ہے ؟

الحمد للہ:

وضوء كر كے موزوں پر مسح كرنے كے بعد موزے اتارنے كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف ہے.

بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ اس كے ليے صرف پاؤں كا دھونا كافى ہے اس طرح اس كا وضوء مكمل ہو جائيگا.

ليكن يہ قول ضعيف ہے، اس ليے كہ وضوء ميں تسلسل ضرورى اور واجب ہے، يعنى وضوء كے اعضاء دھوتے ہوئے زيادہ اور لمبا وقت نہيں ہونا چاہيے بلكہ اعضاء تسلسل كے ساتھ دھوئے جائيں.

اسى ليے ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نے مغنى ميں بيان كيا ہے كہ:

يہ قول وضوء ميں عدم موالاۃ يعنى تسلسل كے عدم وجوب پر مبنى ہے اور يہ ضعيف ہے.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 1 / 367 ).

اور دوسرے علماء كا كہنا ہے كہ ايسا كرنے سے طہارت باطل ہو جاتى ہے، جب وہ نماز ادا كرنا چاہے تو اس كے ليے وضوء كرنا ضرورى ہے، انہوں اس ميں دليل يہ دى ہے كہ:

مسح دھونے كے قائم مقام ہے، چنانچہ جب موزے اتار ديے جائيں تو پاؤں كى طہات ختم ہو جاتى ہے، كيونكہ اس سے نہ تو دھلے ہوئے رہتے ہيں، اور نہ ہى مسح كردہ، اور جب پاؤں كى طہارت ختم ہو جائے تو سارى طہارت ہى باطل ہو گئى اس ليے كہ طہارت كى تجزى نہيں ہوتى ( يعنى اس كے اجزاء نہيں كيے جا سكتے )، شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے، جيسا كہ ان كے فتاوى جات ميں ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 113 ).

اور كچھ علماء كرام كا كہنا ہے كہ اس سے طہارت باطل نہيں ہوتى جب تك كہ وضوء نہ توڑا جائے، سلف رحمہ اللہ كى جماعت كا قول يہى ہے، جن ميں قتادہ، حسن بصرى، ابن ابى ليلى رحمہم اللہ شامل ہيں، اور ابن حزم رحمہ اللہ نے بھى ان كى تائيد كى ہے.

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 1 / 105 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور ابن منذر رحمہما اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے، امام نووى رحمہ اللہ تعالى المجموع ميں كہتے ہيں: مختار اور زيادہ قوى يہى ہے.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 557 ).

انہوں نے كئى ايك دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - حدث كے بغير طہارت ختم نہيں ہوتى، اور موزے اتارنا حدث نہيں ہے.

2 - موزوں پر مسح كرنے والے كى طہارت شرعى دليل سے ثابت ہے، اور اس كے باطل ہونے كا حكم بھى شرعى دليل كے بغير لگانا ممكن نہيں، اور كوئى ايسى شرعى دليل نہيں ملتى جو موزے اتارنے سے طہارت ٹوٹنے پر دلالت كرتى ہو.

3 - وضوء كرنے كے بعد بال منڈانے پر قياس كى بنا پر، كيونكہ جس شخص نے وضوء كيا اوراس ميں سر پر مسح بھى كيا، پھر بعد ميں اپنے سر كے بال منڈا ديے تو اس كا وضوء اور طہارت باقى ہے، ايسا كرنے سے طہارت ختم نہيں ہوتى، تو موزوں پر مسح كر كے اتارنے والا بھى اسى طرح ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جب اس نے مسح كرنے كے بعد موزا يا جراب اتار دى تو ايسا كرنے سے اس كى طہارت ختم نہيں ہو گى، چنانچہ صحيح قول كے مطابق وہ وضوء ٹوٹنے تك جتنى چاہے نماز ادا كر سكتا ہے " انتہى.

ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 193 ).

مزيد تفصيل كے ليے ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 366 - 386 ) اور المحلى ابن حزم ( 1 / 105 ) اور الاختيارات صفحہ نمبر ( 15 ) اور الشرح الممتع ( 1 / 180 ).

واللہ اعلم .


الاسلام سوال و جواب



كيا دوران وضوء پاؤں دھونا فرض ہيں يا كہ مسح كرنا ؟  
اللہ سبحانہ وتعالى نے درج ذيل آيت ميں دوران وضوء پاؤں كا مسح كرنے كا ذكر كيوں كيا ہے: 
﴿ وَامْسَحُوا بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ﴾. 
ہم نے تو دوران وضوء پاؤں دھونے كى تعليم حاصل كى ہے، اس آيت ميں وامسحوا كا كلمہ كيوں آيا ہے؛ كيونكہ ميرى سہيلى نے يہ سوال كيا اور كہنے لگى ميں تو دوران وضوء اپنے پاؤں كا مسح كرتى ہوں، دھوتى نہيں، ميں تو اسے كوئى جواب نہ دے سكى، كيا يہ اعجاز كى كوئى قسم ہے، اور دھونے كے بدلے مسح كا ذكر كرنے ميں كيا حكمت ہے ؟


الحمد للہ:

وضوء ميں پاؤں دھونا فرض ہيں، مسح كرنا كافى نہيں، آپ كى سہيلى نے اس آيت سے مسح كا مفہوم ليا ہے وہ صحيح نہيں.

پاؤں دھونے كى دليل بخارى اور مسلم شريف كى درج ذيل حديث ہے:

عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتے ہيں كہ ايك سفر ميں ہم سے پيچھے رہ گئے، چنانچہ وہ ہمارے ساتھ ملے تو ہم نماز عصر ميں تاخير كر چكے تھے، چنانچہ ہم نے وضوء كيا اور اپنے پاؤں پر مسح كرنا شروع كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بلند آواز سے دو يا تين بار يہ فرمايا: ايڑيوں كے ليے آگ كى ہلاكت ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 163 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 241 ).

اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو ديكھا جس نے اپنى ايڑياں نہيں دھوئى تھيں، تو اسے فرمانے لگے:

" ايڑيوں كے ليے آگ ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 242 ).

ايڑي پاؤں كے پچھلے حصے كو كہتے ہيں.

ابن خزيمہ كہتے ہيں:

اگر مسح كرنے والا فرض ادا كرنے والا ہوتا تو اسے آگ كى وعيد نہ سنائى جاتى.

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وضوء كى طريقہ كے متعلق تواتر كے ساتھ احاديث ملتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے پاؤں دھوئے، اور وہ اللہ تعالى كے حكم كى وضاحت فرما رہے تھے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كسى بھى صحابى سے اس كى مخالفت نہيں ملتى، صرف على بن ابى طالب سے، اور نہ ہى ابن عباس اور انس رضى اللہ تعالى عنہم سے يہ ملتا ہے.

اور ان سے بھى ايسا كرنے سے رجوع ثابت ہے، عبد الرحمن بن ابى ليلى رحمہ اللہ كہتے ہيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كا پاؤں دھونے پر اجماع ہے، اسے سعيد بن منصور نے روايت كيا ہے " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 320 ).

اور درج ذيل آيت ميں جو يہ فرمان بارى تعالى ہے:

﴿ اے ايمان والو جب تم نماز كے كھڑے ہوؤ تو اپنے چہرے اور ہاتھ كہنيوں تك دھو لو اور اپنے سروں كا مسح كرو، اور اپنے پاؤں ٹخنے تك ﴾ المآئدۃ ( 6 ).

يہ آيت پاؤں كے مسح كرنے كے جواز پر دلالت نہيں كرتى، اس كى وضاحت كچھ اس طرح ہے:

آيت ميں دو قرآتيں ہيں:

پہلى قرآت:

﴿ وَأَرْجُلَكُمْ ﴾ لام پر زبر كے ساتھ اس طرح ارجل كا عطف وجہ پر ہو گا اور چہرہ دھويا جاتا ہے، تو اس طرح پاؤں بھى دھوئے جائينگے، گويا كہ اصل ميں آيت كے الفاظ اصل ميں اس طرح ہونگے: اغسلوا وجوھكم و ايديكم الى المرافق و ارجلكم الى الكعبين و امسحوا برؤوسكم.

يعنى اپنے چہروں اور ہاتھوں كو كہنيوں تك اور پاؤں ٹخنوں تك دھوؤو اور اپنے سروں كا مسح كرو.

ليكن پاؤں دھونے كا ذكر مؤخر كرتے ہوئے سر كا مسح كرنے كے بعد ذكر كيا گيا ہے، جو كہ وضوء كرنے ميں اعضاء كى ترتيب پر دلالت كرتى ہے، كيونكہ وضوء ميں ترتيب اسى طرح ہے، كہ پہلے چہرہ دھويا جائے، پھر بازو اور پھر سر كا مسح اور پھر پاؤں دھوئے جاتے ہيں.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 471 ).

دوسرى قرآت:

﴿ وَأَرْجُلِكُمْ ﴾لام پر كسرہ يعنى زير كے ساتھ، تو اس طرح اس كا عطف الراس پر ہو گا، اور سر كا مسح ہے، تواس طرح پاؤں كا بھى مسح ہو گا.

ليكن سنت نبويہ سے ثابت ہے كہ موزے يا جرابيں پہن ركھى ہوں تو ان پر مسح كرنے كى كچھ شرطيں ہيں جو سنت ميں معروف ہيں.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 450 ) الاختيارات ( 13 ).

موزوں پر مسح كرنے كى شروط معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9640 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

تو اس سے يہ واضح ہوا كہ دونوں قرآتيں ہى پاؤں كے مسح كرنے پر دلالت نہيں كرتيں، بلكہ پاؤں دھونے يا پھر موزے پہنے ہونے كى حالت ميں مسح كرنے پر دلالت كرتى ہيں.

بعض علماء كرام ( زير والى قرآت كى حالت ميں ) كا كہنا ہے كہ يہاں مسح كا ذكر كرنے حالانكہ پاؤں دھونے ہيں، ميں حكمت يہ ہے پاؤں دھوتے وقت پانى كم از كم استعمال كيا جائے، كيونكہ عام طور پر پاؤں دھوتے وقت پانى ميں اسراف كيا جاتا ہے، چنانچہ آيت ميں مسح كا حكم ديا، يعنى پاؤں دھونے ميں پانى كا اسراف نہ كيا جائے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور يہ بھى احتمال ہے كہ مسح سے مراد خفيف دھونا مراد ہو، ابو على فارسى كہتے ہيں: خفيف سے دھونے كو عرب دھونا اور غسل كہتے ہيں، چنانچہ وہ كہتے ہيں: تمسحت للصلاۃ يعنى ميں نے نماز كے ليے وضوء كيا" انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 186 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" پاؤں كا مسح كرنے كے ذكر ميں يہ تنبيہ ہے كہ پاؤں پر پانى كم بہايا جائے، كيونكہ عام طور پر انہيں دھونے ميں اسراف سے كام ليا جاتا ہے" انتہى.

ديكھيں: منھاج السنۃ ( 4 / 174 ).

واللہ اعلم .


الاسلام سوال و جواب



مقيم شخص نے تين روز تك مسح كيا تو كيا وہ نمازيں لوٹائے گا ؟  
ميں نے وضوء كيا اور مسلسل تين روز تك جرابيں پہنى ركھيں، انہيں ان تين ايام ميں اتارا نہيں، حالانكہ يہ معلوم تھا كہ مقيم شخص كے ليے جرابوں پر ايك رات اور دن مسح كرنا جائز ہے، كيا ميرى باقى دو ايام كى نمازيں صحيح ہيں، يا كہ مخالفت كرنے كى بنا پر مجھے نمازيں دوبارہ ادا كرنا ہونگى ؟

الحمد للہ:

اول:

صحيح احاديث سے ثابت ہے كہ مقيم شخص كے ليے ايك رات اور دن اور مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن موزوں پر مسح كرنا جائز ہے، اور جرابوں پر مسح كرنا موزوں پر مسح كرنے كى طرح ہى ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے شريح بن ھانئ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس آيا اور ان سے موزوں پر مسح كرنے كے متعلق دريافت كيا تو وہ فرمانے لگيں:

" تم ابن ابى طالب كے پاس جا كر اس كے متعلق دريافت كرو، كيونكہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ سفر كيا كرتے تھے، چنانچہ ہم نے ان سے دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن اور مقيم شخص كے ليے ايك رات اور دن مدت مقرر كى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 276 ).

اور امام ترمذى، ابو داود، اور ابن ماجہ نے خزيمہ بن ثابت انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے موزوں پر مسح كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مسافر كے ليے تين اور مقيم كے ليے ايك روز "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 95 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 157 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 553 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام ترمذى، نسائى اور ابن ماجہ نے صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں حكم ديا كرتے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين رات اور تين نہ اتارا كريں، پيشاب پاخانہ اور نيند كى بنا پر نہيں بلكہ جنابت كى وجہ سے اتار ديں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 96 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 127 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 478 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.

دوم:

مسح كرنے كى مدت كى ابتدا ميں فقھاء كرام كا صحيح قول يہى ہے كہ وضوء ٹوٹنے كے بعد پہلا مسح كرنے سے مدت كى ابتدا ہوتى ہے، نہ كہ موزے پہننے كے وقت سے، اور نہ ہى موزے پہننے كے بعد وضوء ٹوٹنے كے وقت سے چنانچہ اگر كسى نے نماز فجر كے ليے وضوء كيا اور موزے پہن ليے، پھر صبح نو بجے وضوء ٹوٹ گيا اور اس نے وضوء نہ كيا، پھر بارہ بجے وضوء كيا تو مسح كى مدت بارہ بجے سے شروع ہو كر ايك دن اور رات يعنى چوبيس گھنٹے رہے گى.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اوزاعى اور ابو ثور كا كہنا ہے كہ: مسح كرنے كى مدت كى ابتدا وضوء ٹوٹنے كے بعد مسح كرنے كے وقت سے شروع ہو گى، امام احمد سے بھى يہى روايت ہے، اور دليل كے اعتبار سے راجح اور مختار بھى يہى ہے، اسے ابن منذر نے اختيار كيا ہے، اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے اسى طرح بيان كيا جاتا ہے " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 512 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے ہى راجح قرار ديا ہے وہ كہتے ہيں:

" كيونكہ احاديث ميں ہے: " مسافر مسح كرے " اور " مقيم مسح كرے " اور يہ ممكن ہى نہيں كہ مسح كيے بغير اس پر مسح كرنا صادق آتا ہو، يہ اسى وقت ہو سكتا ہے جب وہ مسح كر لے، اور صحيح بھى يہى ہے "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 186 ).

سوم:

اہل علم ميں سے بہت سے علماء جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ابن حزم شامل ہيں نے اختيار كيا ہے كہ:

مسح كى مدت ختم ہونے سے وضوء نہيں ٹوٹتا كيونكہ اس كى كوئى دليل نہيں، بلكہ وضوء تو ان اشياء سے ٹوٹتا ہے جو وضوء توڑنے ميں معروف ہيں، مثلا پيشاب اور پاخانہ وغيرہ.

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 2 / 151 ) الاختيارات الفقھيۃ ( 15 ) الشرح الممتع ( 1 / 216 ).

اس بنا پر جو شخص باوضوء ہو اور نماز ظہر سے قبل مسح كرنے كى مدت ختم ہو جائے تو وہ ظہر اور اس كے بعد والى نماز وضوء ٹوٹنے تك پہلے وضوء سے ہى ادا كر سكتا ہے.

مندرجہ بالا سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر درج ذيل نتيجہ حاصل ہوا:

اگر آپ بے وضوء ہوں اور مسح كرنے كى مدت ختم ہو جائے تو آپ كے ليے وہ سب نمازيں دوبارہ ادا كرنا ضرورى ہيں جو آپ نے مسح كرنے كى مدت ختم ہونے كے بعد ادا كيں اور اپنے پاؤں نہيں دھوئے.

اور اگر مسح كرنے كى مدت ختم ہوئى اور آپ باوضوء تھے، تو آپ كے ليے وہ نمازيں لوٹانا ضرورى ہيں جب سے مدت ختم ہونے كے بعد وضوء ٹوٹا تھا.

واللہ اعلم .


الاسلام سوال و جواب



كيا جرابوں سے بدبو آنے كے باوجود مسح كيا جائيگا ؟  
ايك نمازى وضوء كرنے آيا اور اس نے جرابيں پہنى ہوئى تھيں، يعنى وہ جرابوں پر مسح كرنا چاہے، ليكن اس كى جرابوں سے گندى اور كريہہ قسم كى بو آرہى ہے، خدشہ ہے كہ نمازيوں كو اس سے تكليف ہو گى، چنانچہ اسے كيا كرنا ہو گا ؟

الحمد للہ:

اول:

نمازى كو چاہيے كہ وہ نماز كے وقت اپنے بدن اور لباس كى صفائى كا خيال كرے، تا كہ نہ تو اس سے فرشتوں كو اذيت ہو، اور نہ ہى اس كے نمازى بھائى اذيت محسوس كريں.

اسى ليے نماز جمعہ كے ليے جمعہ كے روز غسل اور مسواك كرنا، اور خوشبو لگانے كى تاكيد ہے، كيونكہ لوگوں كا رش اور ازدحام ہوتا ہے، اور مسلمان شخص كو لہسن اور پياز وغيرہ يا بدبو والى دوسرى اشياء كھا كر مسجد ميں آنے سے منع كيا گيا ہے، تا كہ اس كى بو سے كسى كو تكليف نہ ہو.

امام احمد نے مسند احمد ميں روايت كيا ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہر مسلمان پر حق ہے كہ وہ جمعہ كے روز غسل اور مسواك كرے، اور اگر اس كے پاس خوشبو ہو تو خوشبو لگائے "

مسند احمد حديث نمبر ( 16445 ) شعيب ارناؤط نے مسند احمد كى تحقيق ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى نے بھى پياز اور لہسن، اور كراث كھايا وہ ہمارى مسجد كے قريب بھى نہ آئے، كيونكہ جس چيز سے بنو آدم اذيت محسوس كرتے ہيں، فرشتے بھى اس سے اذيت اور تكليف محسوس كرتے ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 564 ).

چنانچہ اگر جرابوں سے گندى اور كريہہ قسم كى بو آ رہى ہو تو انہيں يقينا اتار لينا چاہيے، اور پاؤں دھوئے جائيں، كسى شخص كے ليے بھى حلال نہيں كہ وہ فرشتوں اور نمازيوں كو اس كى بو سے اذيت دے، اگر وہ اسى طرح مسجد ميں داخل ہو تو اسے باہر نكلنے كا كہا جائے.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:

" لوگو تم يہ دو پودے كھاتے ہو، ميں انہيں خبيث سمجھتا ہوں، يہ پياز اور لہسن ہے، ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا كہ جب كسى شخص سے ان دونوں كى بو آ رہى ہوتى تو آپ نے اسے مسجد سے نكل جانے كا حكم ديا، تو اسے بقيع كى طرف نكال ديا جاتا، چنانچہ جو كوئى بھى اسے كھانا چاہے تو وہ اسے پكا كر كھائے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 567 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس ميں يہ دليل ہے كہ: مسجد ميں جس شخص سے بھى پياز اور لہسن كى بو آ رہى ہو اسے مسجد سے نكل ديا جائے، اور جس كے ليے ہاتھ كے ساتھ برائى ختم كرنى ممكن ہو اسے ختم كرنى چاہيے.

واللہ اعلم .


الاسلام سوال و جواب



اگر باياں پاؤں دھونے سے قبل دائيں پاؤں ميں جراب پہن لى تو كيا مسح كيا جا سكتا ہے ؟  
بعض لوگ وضوء ميں داياں پاؤں دھو كر جراب پہن ليتے ہيں، اور پھر اپنا باياں پاؤں دھو كر جراب پہنتے ہيں، كيا اس كے بعد وضوء كرتے وقت جرابوں پر مسح كرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

بہتر اور احتياط اسى ميں ہے كہ: وضوء كرنے والا دونوں پاؤں دھونے سے قبل جرابيں نہ پہنے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تم ميں سے كوئى بھى وضوء كرے اور موزے پہنے تو ان پر مسح كر كے ان ميں نماز ادا كر لے، اور اگر چاہے تو جنابت كے بغير انہيں نہ اتارے "

اسے دار قطنى، اور امام حاكم نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، اور امام حاكم نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اس ليے بھى كہ ابو بكرہ ثقفى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وضوء كر كے موزے پہننے پر مسافر كو تين راتيں اور تين دن اور مقيم كو ايك رات اور دن مسح كرنے كى اجازت دى "

اسے دار قطنى نے روايت كيا ہے،اور ابن خزيمہ نے صحيح كہا ہے.

اور اس ليے بھى كہ صحيحين ميں مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے، انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو وضوء كرتے ہوئے ديكھا تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے موزے اتارنا چاہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

" انہيں رہنے دو كيونكہ ميں نے يہ وضوء كر كے پہنے تھے "

ان تينوں اور اس موضوع كى دوسرى احاديث كا ظاہر يہى ہے كہ مسلمان شخص نے اگر وضوء مكمل كر كے موزے اور جرابيں پہنى ہوں تو وہ ان پر مسح كر سكتا ہے، وگرنہ نہيں، اور جس شخص نے دائيں پاؤں ميں موزا يا جراب باياں پاؤں دھونے سے قبل پہن ليا اس كا وضوء مكمل نہيں ہوا.

اور بعض اہل علم مسح كرنا جائز قرار ديتے ہيں، چاہے مسح كرنے والے نے باياں پاؤں دھونے سے قبل ہى دائيں پاؤں ميں موزا يا جراب پہن لى ہو؛ كيونكہ دونوں ہى دھونے كے بعد پہنے تھے.

ليكن احتياط پہلے ميں ہى ہے، اور دليل ميں بھى يہى ظاہر ہوتا ہے، اس ليے جو شخص بھى ايسا كرے وہ مسح كرنے سے قبل دائيں پاؤں سے موزا يا جراب اتار كر باياں پاؤں دھونے كے بعد دوبارہ پہنے، تا كہ اختلاف سے بچا جائے اور اپنے دين ميں احتياط برت سكے " انتہى.

الشيخ ابن باز رحمہ اللہ.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 116 ).

كامل وضوء كرنے سے قبل موزے يا جراب پہن كر مسح كرنے كے عدم جواز پر ابن خزيمہ اور دارقطنى كى درج ذيل حديث سے بھى استدلال كيا جا سكتا ہے:

ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اجازت دى كہ اگر وضوء كر كے موزے پہنے تو مسافر تين دن اور راتيں اور مقيم ايك دن اور رات مسح كرے "

اسے خطابى نے صحيح كہا ہے، اور امام بيھقى نے نقل كيا ہے كہ: امام شافعى رحمہ اللہ نے اسے صحيح اور امام نووى نے حسن قرار ديا ہے.

ديكھيں: تلخيص الحبير ( 1 / 278 ) اور المجموع للنووى ( 1 / 541 ) بھى ديكھيں.

واللہ اعلم .


الاسلام سوال و جواب